الیکشن کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں نام نہاد جمہوریت کا اصل چہرہ بے نقاب
الیکشن کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں نام نہاد جمہوریت کا اصل چہرہ بے نقاب۔۔بھارت دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت ہو نے کا دعویٰ کرتا ہے مگر حقیقت میں یہ ایک نام نہاد جمہوریت ہے جو خطے میں فسطائیت کو فروغ دے رہی ہے۔۔1951 سے لیکر 2024 تک بھارت نے مقبوضہ وادی میں جتنے بھی نام نہاد الیکشن کروائے وہ تمام دھاندلی، دھوکہ دہی اور بددیانتی پر مشتمل تھے۔۔2019 میں مودی سرکار نےآرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے کشمیریوں سے اُن کا حقِ خود ارادیت چھین لیا لیکن اس کے باوجود حالیہ جموں و کشمیر الیکشن میں بی جے پی کو منہ کی کھانا پڑی۔۔۔بی جے پی ہو یا کوئی بھی بھارتی حکومت ہو کشمیر میں الیکشن کے دوران ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال کر کے حقیقی جمہوری قوتوں کو ختم کرتی ہے۔۔۔حالیہ الیکشن سے قبل مقبوضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی حکومت نے موجودہ 8 لاکھ فوجی تعیناتی کے باوجود پیراملٹری فورسز کی تقریبا 300 اضافی کمپنیاں تعینات کر دیں تاکہ الیکشن کو ہر طرح سے ہائی جیک کیا جائے ۔۔بھارت کشمیر میں ہمیشہ کٹھ پتلی حکومت بناتا ہے جس کو بھارت کی مرکزی حکومت کےتحت کام کرنا پڑتا ہے۔۔ہر الیکشن سے قبل بھارتی سیاسی جماعتیں کشمیری رہنماؤں سے اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اتحاد کرتی ہیں۔۔کٹھ پُتلی کشمیری رہنما الیکشن جیتنے کے بعد بھارت کی بولی بولنے لگتے ہیں اور عوام سے کیے گئے وعدوں سے سرگرداں نظر آتے ہیں۔۔حال ہی میں نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے کہا کہ”ہم بی جے پی کے ساتھ مل کر کام کریں گے ، مودی ایک ایمانداری آدمی ہیں ۔۔آرٹیکل 370 کی بحالی ناممکن ہے اور نا ہی ایسا کچھ ہو سکتا ہے ۔۔اس الیکشن میں حریت کانفرنس کے رہنما جیل یا نظر بندی میں بدستور قید تھے، میڈیا پر پابندیاں برقرار تھیں اور غیر ملکی صحافیوں کو علاقے کا دورہ کرنے سے بھی روک دیا گیا تھا۔۔دوسری جانب نئی حلقہ بندیاں کی گئیں جن کا مقصد مسلم آبادی کو بے اختیار کرنا تھا، جموں کی نمائندگی کو 43 نشستوں تک بڑھا دیا گیا جبکہ کشمیر کو 47 نشستیں دی گئیں، حالانکہ وادی کی آبادی جموں سے کہیں زیادہ ہے۔۔اس الیکشن میں بی جے پی وادی میں 19 نشستوں میں سے ایک بھی جیتنے میں ناکام رہی لیکن جموں کے ہندو اکثریتی اضلاع سے 29 نشستیں حاصل کیں، اس سے خطے میں ہندو مسلم تقسیم مزید واضح ہو گئی ہے۔