لاہور، 2 دسمبر – لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک ریونیو شارٹ فال 1 کھرب روپے سے تجاوز کر سکتا ہے جس کی وجہ سے حکومت منی بجٹ لاسکتی ہے، اس سے کاروباری طبقے اور عوام پر مزید بوجھ پڑے گا۔ صدر لاہور چیمبر میاں ابوذر شاد، سینئر نائب صدر انجینئر خالد عثمان اور نائب صدر شاہد نذیر چودھری نے کہا کہ ایف بی آر پہلے ہی مالی سال کے ابتدائی چار ماہ میں 196 ارب روپے کا ٹارگٹ پورا نہیں کر سکا اور اکتوبر میں 103 ارب روپے کی مزید کمی آئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو اس کے نقصان دہ نتائج برآمدہونگے۔ ایک ٹریلین روپے روپے کا ریونیو خسارہ صرف مالی استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی حالات کی وجہ سے معاشی معاملات پس پشت چلے گئے ہیں جس سے ریونیو بحران گہرا ہو رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر فوری طور پر اصلاحی اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کو مالی بحران کا سامنا ہوگا جو اس کی معاشی بحالی کو بری طرح دھچکا پہنچائے گا۔ انہوں نے پالیسی میکرز پر زور دیا کہ وہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ دس کروڑ سے زائد بینک اکاﺅنٹ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عارضی اقدامات وقتی طورپر خلا پرکرسکتے ہیں لیکن یہ ٹھوس حل نہیں ہیں اور کاروباری برادری پر بوجھ بڑھاتے ہیں۔ لاہور چیمبر کے عہدیداروں نے کہا کہ منی بجٹ کی صورت میں درآمدات اور خام مال پر بھاری ٹیکس صنعتوں کی ترقی روکے گا اور مقامی صنعتوں کی مسابقتی صلاحیت کم کرے گا۔ اضافی ڈیوٹیز سرمایہ کاری کو روک دیں گی ، پیداوار کو محدود کریں گی جس کے اثرات برآمدات پر مرتب ہونگے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ پالیسی سازی کے عمل میں نجی شعبہ کی مشاورت یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری اور کاروباری ترقی کے لیے بہترین ماحول اور مستقل پالیسیاں ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت معاشی مسائل پر خصوصی توجہ مرکوز کرے۔ لاہور چیمبر کے عہدیداروں نے بحران سے بچنے کے لیے غیر رسمی معیشت کو دستاویزی بنانا، غیر استعمال شدہ وسائل کو استعمال میں لانے، ڈیجیٹلائزیشن اور شفافیت ک ےذریعے ٹیکس وصولی بڑھانے سمیت بہت سے حل تجویز کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دے، انفراسٹرکچر، انڈسٹری اور برآمدات کی ترقی کے لیے باہمی مشاورت سے اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ بحران کی آمد کا انتظار کرنے کے بجائے فوری طور پر اقدامات اٹھانا ہونگے تاکہ منی بجٹ کی نوبت پیش نہ آئے۔
